عربی النسل نظریہ
آرائیں قبیلہ کے متعلق صوفی محمد اکبر علی جالندھری کی کتاب سلیم التواریخ اور علی اصغر چوہدری کی کتاب تاریخ آرائیاں مولف نے پڑھ رکھی ہیں۔ ہر دو مصنفین نے قرار دیا کہ آرائیں ان عربی مجاہدین کی اولاد ہیں جنہوں نے محمد بن قاسم کی سپہ سالاری میں سندھ، ملتان اور ارد گرد کا علاقہ فتح کیا تھا اور جو کچھ وجوہات کی بنا پر یہیں آباد ہو گئے تھے۔ اس طرح انہوں نے قرار دیا کہ آرائیں عربی النسل ہیں۔
The author has studied Saleem-ul-Tawarikh by Sufi Muhammad Akbar Ali Jalandhari and Tareekh-e-Arain by Ali Asghar Chaudhry. Both historians assert that the Arain tribe descends from the Arab warriors who, under Muhammad bin Qasim’s command, conquered Sindh, Multan, and surrounding regions. Due to certain reasons, they settled in these areas, establishing their Arab lineage.
پروفیسر احمد حسن دانی کا نظریہ
مولف کافی لمبے عرصے سے اس نظریے پر یقین کیے ہوئے تھا اور اپنے عربی النسل ہونے پر نازاں بھی تھا لیکن چار جولائی 2002 کو روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں بین الاقوامی شہرت کے حامل ماہر آثار قدیمہ پاکستانی پروفیسر احمد حسن دانی کا انٹرویو پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ دوران انٹرویو ان سے اینکر پرسن نے اچانک ایک سوال کر دیا کہ آیا آرائیں عربی النسل ہیں؟ پروفیسر دانی نے جواب دیا کہ نہیں، آرائیں ایک مقامی النسل قبیلہ ہیں۔
The author firmly believed in this theory for a long time and took pride in his Arab ancestry. However, on July 4, 2002, he came across an interview with renowned Pakistani archaeologist Professor Ahmad Hasan Dani in Daily Jang’s Sunday Magazine. During the interview, the host unexpectedly asked whether the Arain tribe had Arab origins. Professor Dani firmly responded, “No, Arains are a native ethnic group.”
تاہم دانی صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ آرائیوں کا ہندوستان کی کس نسل سے تعلق ہے۔ پروفیسر دانی کا مذکورہ نظریہ سن کر مولف کے دل و دماغ میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ ایک طرف تو دماغ میں لمبے عرصے سے راسخ عربی النسل ہونے کا نظریہ تھا جس سے انحراف کرنے میں بڑی تکلیف محسوس ہونے لگی، دوسری طرف یہ بھی خیال آتا تھا کہ پروفیسر دانی برصغیر کے آثار قدیمہ اور قدیم تاریخ پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں، لہٰذا ان کا فرمایا ہوا مستند ہے۔
However, Professor Dani did not specify which indigenous lineage the Arains belong to in India. His statement deeply unsettled the author, creating an internal conflict. On one hand, the long-held belief in Arab ancestry made it difficult to accept a different perspective. On the other, Professor Dani was a renowned authority on South Asian archaeology and history, making his claim highly credible.
تحقیق کا آغاز
دو تین ماہ اسی کشمکش میں گزر گئے کہ کس نظریہ کو اپنایا جائے، کس نظریے پر یقین کیا جائے؟ ذہن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ آرائیں قوم کی شناخت اندھیروں میں گم ہوتی ہوئی دکھائی دی۔ آخر فیصلہ کیا کہ ہر دو نظریات کا مفصل مگر تحقیقی مطالعہ کیا جائے اور جدید سائنسی تحقیق کی روشنی میں جائزہ لیا جائے کہ کون سا نظریہ یقین کے قابل ہے۔ اگر پروفیسر صاحب کا نظریہ درست ہے تو معلوم ہو سکے کہ آرائیں برصغیر کے کس نسلی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
For two to three months, the author struggled with which theory to accept. The identity of the Arain tribe seemed lost in uncertainty. Finally, he decided to conduct a detailed, research-based study of both perspectives and evaluate them through modern scientific analysis. If Professor Dani’s claim was correct, the goal was to determine which indigenous ethnic group the Arains truly belonged to.

چنانچہ مولف نے برصغیر کی تواریخ مثلاً تاریخ فرشتہ، تاریخ فیروز شاہی اور دیگر بہت سی تاریخی کتب کا مطالعہ شروع کیا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان تواریخ سے کوئی مدد نہ مل سکی۔ بلکہ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ تواریخ تو دراصل شاہی روزنامچے ہیں، جو کہ حکمرانوں نے لکھوا رکھے ہیں، جس میں حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کے کوائف، ان کی آپسی جنگوں اور فتوحات کے حالات لکھوا کر محفوظ کیا گیا ہے۔ ان میں عوام اور سلطنت میں آباد قوموں کا ذکر خال خال ہی پایا جاتا ہے۔ ان تاریخی کتابوں سے ان اقوام کی نسلی شناخت سے متعلق کوئی معلومات حاصل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
The author began studying historical texts like Tareekh-e-Firishta, Tareekh-e-Firoz Shahi, and many others. However, to his disappointment, these sources provided no useful insights. On closer examination, it became clear that these were essentially royal chronicles commissioned by rulers, documenting their lineages, wars, and conquests. They contained little to no information about common people or the ethnic identities of the tribes living in the empire. Thus, these histories offered no clues about the origins of the Arain tribe.
مولف کو بڑی مایوسی ہوئی، راتوں کی نیند اڑ گئی۔
بقول شاعر کنیا لال ہندی
فی الحقیقت جاگنے والوں کو کب آتی ہے نیند
رو برو آتے ہوئے بھی شرماتی ہے نیند
شام سے وقت سحر تک بندہ بیدار دل
سو نہیں سکتا، لیکن آپ سو جاتی ہے نیند۔
جدید تحقیقی ذرائع
اسی دلی کیفیت میں دور جدید میں لکھی جانے والی تواریخ کا مطالعہ شروع کیا، جو کہ آثار قدیمہ کی دریافتوں، پرانے سکوں، پرانے کتبوں، ہندو مذہبی کتاب رگوید، پران اور پتھر کی لاٹوں پر کندہ تحریروں، دستیاب قدیمی دستاویزات، غاروں اور پرانی عمارتوں پر بنائی جانے والی تصویروں اور زمانہ قدیم میں ہندوستان میں آنے والے سیاحوں کی تحریروں کی مدد سے لکھی گئی ہیں، جن کے لکھنے میں گہرے غور و فکر اور استدلال معقول سے کام لیا گیا ہے۔
In the same state of mind, the author began studying modern histories that were based on archaeological discoveries, ancient coins, inscriptions on old temples, Hindu religious texts like the Rigveda and Puranas, ancient manuscripts, cave paintings, and writings of early travelers to India. These histories were written with careful analysis and reasoning, drawing from a wide range of available historical evidence.
ان تاریخوں میں زمانہ قدیم سے برصغیر میں وارد ہونے والی نسلوں پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ یہ نسلیں کہاں سے اور کب برصغیر میں آئیں۔ ان نسلوں کا رنگ، قدکاٹھ اور چہرے کے خدوخال کیسے تھے؟ ان نسلوں کا برصغیر میں پھیلاؤ کیسے ہوا؟ آباد کاری کیسے ہوئی؟ ان نسلوں سے کون کون سے حکمران خاندان پیدا ہوئے؟ ان کی کن علاقوں میں حکومتیں قائم ہوئی؟ آیا یہ نسلیں خالص رہیں یا ان کا آپسی ادغام ہوا؟ خالص رہی تو کس حد تک؟ اگر ادغام ہوا تو ان کے ملاپ سے کون سی نئی ذاتیں، نئی اقوام، نئے ناموں سے معرض وجود میں آئیں؟ ان جدید تواریخ نے مؤلف کونئی روشنی سے آشکار کیا اور تحقیق کے دروازے کھلتے چلے گئے۔
These modern histories shed light on the various ethnic groups that arrived in the Indian subcontinent throughout ancient times, detailing when and from where they came. They describe their physical traits, such as skin color, height, and facial features. The texts explore how these groups spread across the region, settled, and established communities. They also examine which ruling dynasties emerged from these groups, where they established their rule, and whether these groups remained pure or intermingled. If they remained pure, to what extent? If there was intermingling, which new castes, ethnicities, or names emerged from these unions? These modern histories revealed new insights to the author, opening doors for further investigation.
مذکورہ جدید تحقیقی تواریخ کے علاوہ علاقائی تواریخ، ضلعی گزٹیر، ذاتوں کے متعلق لکھی گئی تواریخ، ان علاقوں کی تاریخ جہاں سے مختلف نسلی گروہ برصغیر میں آئے، کا مطالعہ کیا۔ برصغیر میں آباد مختلف علاقوں کے لوگوں یا نسلی گروہوں، ایران، افغانستان، عرب اور یورپ میں بسنے والے لوگوں کے قد کاٹھ، رنگ، چہرے کے خدوخال کا ٹیلی ویژن پروگراموں اور انٹرنیٹ پر موجود تصویروں کی مدد سے عمیق مشاہدہ کیا۔
In addition to the aforementioned modern historical research, the author studied regional histories, district gazetteers, and histories of various castes, as well as the histories of regions from which different ethnic groups migrated to the subcontinent. The physical traits—such as height, skin color, and facial features—of people from various regions in the subcontinent, as well as those from Iran, Afghanistan, Arabia, and Europe, were closely observed through television programs and online images.
ان تواریخ، تحریری دستاویزات کے مطالعہ کی روشنی میں اور ٹیلی ویژن پروگراموں کے عمیق مشاہدہ سے آرائیں قبیلے کا تنقیدی جائزہ لے کر کتاب مرتب کرنا شروع کی ۔ کتاب میں دنیا کی بنیادی انسانی نسلوں اور ان کے برصغیر میں آنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ آرائیوں کے ساتھ ساتھ شمالی ہند کی دیگر ذاتوں کا بھی احوال لکھا گیا ہے تاکہ آرائیں قوم کی شناخت قائم کرنے میں مدد مل سکے اور یہ بھی معلوم ہو سکے کہ یہ ذاتیں، آرائیں، آوان، آہیر , ڈوگر، گجر، جٹ، کمبوہ ، میو، راجپوت کہاں تک ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور کہاں تک آپس میں مختلف ہیں۔
Based on the study of these histories, written documents, and careful observation of television programs, the author began compiling this book. The book discusses the fundamental human races and their migration to the subcontinent. In addition to the Arain tribe, it also covers other ethnic groups of northern India to help establish the identity of the Arain people. It explores how closely these groups—Arains, Awan, Ahir, Dogar, Gujjar, Jatt, Kamboh, Meo, and Rajput—are related and where they differ from one another.
کتاب کا مقصد
کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے: حصہ اول میں آرائیں قوم کی نسلی شناخت اور تاریخ سے ان کے تعلق کو اجاگر کیا گیا ہے، جبکہ حصہ دوم میں برصغیر کی جنگ آزادی، تحریک پاکستان اور تعمیر پاکستان میں اس قوم کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ سیاسی، علمی، ادبی، صحافتی، سائنسی اور دیگر انتظامی شعبوں کے نامور آرائیں افراد کا ذکر کیا گیا ہے۔
The book is divided into two parts: Part One highlights the ethnic identity of the Arain tribe and its historical connections while Part Two focuses on the tribe’s role in the Indian independence movement, the Pakistan movement, and the construction of Pakistan. It also mentions notable Arain figures in various fields including politics, academia, literature, journalism, science, and administration.

اپنے موضوع کی تحقیق کرنے اور کتاب کے لیے مواد اکٹھا کرنے میں 15 سال لگ گئے۔ اس دوران کئی کٹھن مراحل بھی آئے، کئی بار لوگوں نے یہ بھی کہا کہ اس موضوع پر کتاب لکھنے سے آپ کو کیا فائدہ ہوگا؟ بعض اوقات مولف بھی سوچ میں پڑ جاتا لیکن اس خیال سے کہ تاریخ لوگوں کو ان کے ماضی کے حقائق و واقعات سے آگاہ کرتی ہے، آنے والی نسلیں اس کی روشنی میں اپنا حال اور مستقبل بہتر طور پر تعمیر کرتی ہیں، دوبارہ ہمت کر کے اپنے کام میں مصروف ہو جاتا ۔ تاکہ آرائیں قبیلہ کے افراد کو اپنی تاریخ، اپنی روایات، اپنے بزرگوں، اپنے دانشوروں اور اپنی قومی عظمت سے رو شناش کرایا جا سکے کیونکہ کوئی قوم اگر اپنی تاریخی روایات اور اسلاف کے کارناموں سے ناواقف ہو تو اس قوم کو اندھی، بہری اور گونگی سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ ایسی بے شناخت قوم کو نیم مردہ بھی کہا جائے تو غلط نہیں ہے۔ کتاب کا مقصد کسی احساس برتری میں مبتلا ہو کر قبیلہ پرستی کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ قبیلہ کی نسلی شناخت کی تحقیق ہی مقصود نظر ہے۔
It took 15 years to research the topic and gather material for the book. During this time, the author faced many challenges and was often questioned about the purpose of writing a book on this subject. At times, the author too would reflect, but the belief that history informs people of their past and helps future generations build a better present and future kept him motivated. He persevered, determined to acquaint the Arain tribe with their history, traditions, ancestors, scholars, and national pride. A tribe unaware of its historical heritage and ancestors’ achievements is often considered blind, deaf, and mute, or even semi-dead. The aim of the book is not to promote tribal superiority, but to investigate and establish the tribe’s ethnic identity.
اسلام میں نسلی شناخت کا تصور
اسلام میں نسلی شناخت کو سمجھنے کا مقصد کسی قسم کی برتری یا تقسیم کو فروغ دینا نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بارے میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت میں تنوع پیدا کیا ہے۔ قرآن میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ تمام انسان ایک عالمی خاندان کا حصہ ہیں، جنہیں اللہ نے ایک ہی جان سے پیدا کیا ہے۔
The purpose of understanding ethnic identity in Islam is not to promote superiority or division. Rather, it is about acknowledging the fact that Allah (SWT) has created diversity within humanity. The Qur’an clearly states that all human beings are part of one global family, created from a single soul by Allah.
جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں
سورۃ الحجرات 49:13
اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔ بے شک اللہ جاننے والا اور باخبر ہے۔
Allah says in Surah Al-Hujurat (49:13): ‘O mankind, indeed we have created you from male and female and made you peoples and tribes that you may know one another. Indeed, the most noble of you in the sight of Allah is the most righteous of you. Indeed, Allah is Knowing and Acquainted.’
سورۃ الروم 30:22
اور اس کی نشانیوں میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق ہے اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔
Allah says in Surah Ar-Rum 30:22, “And among His signs is the creation of the heavens and the earth, and the diversity of your languages and colors. Indeed, in that are signs for those who know.”
یہ آیات اس بات کو اجاگر کرتی ہیں کہ زبانوں اور رنگوں میں جو اختلافات ہیں وہ اللہ کی تخلیق کی نشانی ہیں اور نسلی اور قبائلی فرق اللہ کی طرف سے ایک منصوبے کے طور پر ہیں اور انسان کی عظمت کا اصل معیار اس کا تقویٰ اور پرہیزگاری ہے، نہ کہ اس کی نسلی شناخت۔
نسب کی اہمیت اور حفاظت
صحیح بخاری میں حدیث نمبر 3509
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: ”سب سے بڑا بہتان اور سخت جھوٹ یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے سوا کسی اور کو اپنا باپ کہے یا جو چیز اس نے خواب میں نہیں دیکھی۔ اس کے دیکھنے کا دعویٰ کرے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی حدیث منسوب کرے جو آپ نے نہ فرمائی ہو۔“
Sahih al-Bukhari (Hadith 3509) reports that the Prophet Muhammad (ﷺ) said, “Verily, one of the worst lies is to claim falsely to be the son of someone other than one’s real father, or to claim to have had a dream one has not had, or to attribute to me what I have not said.”
صحیح مسلم میں حدیث نمبر 1370
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جس شخص نے اپنے والد کے سواکسی اور کا (بیٹا) ہونے کا دعویٰ کیا یا جس (غلام) نے اپنے موالی (آزاد کرنے والوں) کے سوا کسی اور کی طرف نسبت اختیار کی اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے کوئی عذر قبول فرمائے گا نہ بدلہ۔”
Sahih Muslim (Hadith 1370): The Messenger of Allah (peace and blessings be upon him) said: “Whoever claims to be the son of someone other than his father, or attributes himself to people other than his masters (who emancipated him), then upon him is the curse of Allah, the angels, and all of mankind. On the Day of Judgment, Allah will accept from him neither repentance nor ransom.”
ان احادیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جھوٹے نسبی دعوے کرنا اسلام میں سختی سے منع ہے
ان احادیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جھوٹے نسبی دعوے کرنا اسلام میں سختی سے منع ہے اور اس پر اللہ کی لعنت اور جنت سے محرومی کی وعید سنائی گئی ہے۔یہ احادیث اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہیں کہ کسی شخص کو اپنے نسب میں جھوٹ بول کر کسی دوسرے قبیلے یا نسل سے تعلق کا دعویٰ کرنے کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ یہ نہ صرف ایک اخلاقی گناہ ہے بلکہ اس کے سنگین دینی اور معاشرتی نتائج بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔
The hadiths clearly indicate that making false claims of lineage is strictly forbidden in Islam, and those who do so are warned of Allah’s curse and being deprived of Paradise. These hadiths emphasize the fact that a person is not permitted to lie about their lineage and claim association with another tribe or ethnicity, as it is not only a moral sin but can also lead to serious religious and social consequences.
اسلام میں نسب کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے، اور اس میں حقیقت اور سچائی کو ترجیح دی گئی ہے۔ اس اصول کا مقصد افراد کو اپنی اصل شناخت کی اہمیت کا احساس دلانا اور معاشرتی سطح پر جھوٹے دعووں سے بچنے کی ترغیب دینا ہے، کیونکہ یہ جھوٹے دعوے سماجی خلفشار کا باعث بن سکتے ہیں۔
In Islam, the importance of lineage is acknowledged, with an emphasis on truth and honesty. The purpose of this principle is to make individuals aware of the significance of their true identity and to encourage them to avoid making false claims at the societal level, as such deceitful claims can lead to social discord.
ابن خلدون نے اپنی مشہور تصنیف “مقدمہ ابن خلدون” میں نسب کی پاکیزگی پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ انہوں نے نسب کی اہمیت کو معاشرتی تنظیم اور شناخت کے لیے ضروری قرار دیا، اور اسے افراد اور خاندانوں کے درمیان حیثیت اور عزت کا ایک اہم ذریعہ سمجھا۔
ابن خلدون نے اپنی تصنیف “مقدمہ” میں نسب کی پاکیزگی کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ ان کے مطابق “نسب کی پاکیزگی” انسان کی اجتماعی حیثیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ “نسب کی پاکیزگی” یہ یقینی بناتی ہے کہ خاندان یا قبیلہ معاشرتی طور پر ایک معزز مقام حاصل کرے، کیونکہ لوگ اپنی اصل سے جڑے رہ کر عزت اور وقار کو برقرار رکھتے ہیں۔
Ibn Khaldun, in his work Muqaddimah, emphasizes the importance of the purity of lineage. According to him, the “purity of lineage” plays a crucial role in a person’s social status. He states that maintaining a pure lineage ensures that a family or tribe holds a respectable position in society, as people maintain honor and dignity by staying connected to their origins.
اگر نسب میں کوئی جھوٹ یا ناپاکی ہو تو یہ نہ صرف خاندان کی اجتماعی حیثیت کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ اس سے فرد کی اخلاقی حیثیت اور سماجی تعلقات بھی متاثر ہو تے ہیں۔ ابن خلدون کے نظریات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ نسب کی حفاظت اور اس کی سچائی کو برقرار رکھنا نہایت ضروری ہے تاکہ افراد اور خاندانوں کے درمیان عزت و وقار کا ماحول قائم رہے۔